کیا خوب تھے بچپن کے وہ دن
کیا خوب تھے بچپن کے وہ دن...!
از قلم، عمر فاروق مظاہری
قاریٔین!! انسان کی زندگی میں تین دور آتا ہے بچپن، جوانی، بڑھاپا، ان تینوں میں سب سے زیادہ خوبصورت بچپن کا دور ہوتا ہے، جہاں انسان غموں اور ذمہ داریوں سے کوسوں دور اپنی دنیا میں مست ومگن ہوتاہے، کبھی دوستوں کے ساتھ مٹر گشتی کرتا ہے تو کبھی کاغذی کشتیاں بناکر پرنالوں سے گرتے ہوئے پانی پر چلاتا ہے تو کبھی جگنوؤں کو پکڑ کر روشنی حاصل کرتا ہے۔
واللہ کیا ہی خوشنما بچپن کی وہ زندگی تھی جب ہم برسات کے موسم میں برستے پانی، گرجتے بادل،گرتی آبشاروں کے بیچ دوستوں سے اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے پورا دن نہروں اور کھیتوں کا چکر لگاتے تھے، اور صحت اتنی عمدہ ہوتی تھی کہ پورا دن بھیگنے کے باوجود بخار، کھانسی، آس پاس بھی نہیں پھٹکتا تھا۔
خاص طور پر کھیتی کے موسم میں تو اور بھی مزا آتا تھا، سورج کا مُکھڑا ابھی اپنی چِلمَن سے باہر بھی نہ آ پاتا کہ کسان ہل اور بیل لیکر کھیتوں کی طرف چل دیتے تھے، اور جب ہم والد صاحب کیلئے صبح کا ناشتہ لیکر کھیت پہنچتے تو ہم کسانوں کو دیکھتے کہ وہ اپنے کاموں میں جٹے ہوئے ہیں، یہ زمین کھود رہا ہے، وہ کھیت جوت رہا ہے، اور تیسرا رہٹ چلا رہا ہے ساتھ ہی اُنکی عورتیں کام میں اُنکا ہاتھ بٹا رہی ہیں اور اپنے حصے کے بقدر کوشش کر رہی ہیں اور غموں سے کوسوں دور ہر ایک فرحاں و شاداں نظر آتے تھے، یقیناً بڑا خوشنما اور دلفریب منظر دیکھنے کو ملتا تھا، لیکن اب نہ بیل رہا نہ ہل، بیل کباب اور ٹکیاں بننے میں استعمال ہونے لگا تو ہل چولہے میں جلاون کے طور پر..
مجھے یاد پڑتا ہے بچپن کے دنوں میں کسی موقع پر دادا جان نے مجھے (اللہ اُنکی مغفرت فرمائے) سایٔکل پر بٹھاکر 65 سال کی عمر میں تقریباً 35کیلومیٹر تک کا سفر کیا تھا جسکا آج کے دور میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا اور یہ کویٔ تعجب کی بات نہ تھی، اصل یہ ہے کہ اُس وقت کی خوراک نقلی اور دویٔم درجے کی چیزوں سے ہٹ کر خالص اصلی چیزیں ہوا کرتی تھیں جیسے باجرے کی روٹی، خالص مکھن اور گھی میں تلی ہوئی روٹیاں اور تروتازہ کھیتوں سے اُگای گئی سبزیاں ہوتی تھیں، جسکو کھاکر ہر شخص ترو تازہ اور صحت مند رہتا تھا۔
سادگی کا یہ حال تھا کہ رات کو اسمارٹ فون میں کہانیاں سننے کے بجائے دادی جان سے کہانیاں سنکر سویا کرتے تھے جسکا اثر یہ ہوتا تھا کہ جب صبح کو نیند سے بیدار ہوتا تو دل مثل آیٔنہ صاف، جسم توانا، اور دل خوش و خرم رہتا تھا، اسی کا نتیجہ تھا کہ رنجشیں، نخوتیں، اور عداوتوں سے پرے ایک محبت کی دنیا ہوا کرتی تھی، ایسا ماحول تھا کہ پڑوس کے گھر بکری بھی مر جاتی تو ہفتوں ماتم ہوتا تھا قطع نظر اس سے کہ بکری رشتے میں نہ ہمارے ماما لگتے تھے نہ ہماری خالہ لگتی تھی۔
بھای چارگی کا یہ ماحول تھا کہ مشرا جی کی منگنی میں موسی جی لٹّو ہوتے تھے، تو کہیں بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ کہ آج میرے یار کی شادی ہے یعنی خوشیاں کسی کی بھی ہو اور کیسی بھی ہو لطف اندوز سب ہوتے تھے نہ نفرتوں کی دیواریں تھیں نہ رشتوں میں دراریں تھیں، چھوٹا بڑوں کی ادب کرتا تو بڑا چھوٹوں پر رحم کرتا تھا یعنی سب مل جُل کر ایک کُمبے کیطرح رہتے تھے۔
لیکن جیسے ہی زمانے نے کروٹ لی اور انیسویں دور ختم ہوکر دوہزاریا دور شروع ہوا تو محبتیں نفرتوں میں بدلنے لگی، دوستی دشمنی میں تبدیل ہونے لگی، رشتے مفاد پرستی پر قائم ہونے لگی، حاصل یہ ہوا کہ سب کچھ ہو کر بھی انسان تنہا رہ گیا، اب خوشی ہے مگر کس کے ساتھ بانٹیں؟ غم ہے مگر کس کو دکھڑا سنایں؟ راز ہے مگر کس کو بتایٔں؟ کہانیاں ہیں مگر دادیاں سارے قبروں میں جا سوۓ...
کیا کیا لکھوں اور کہاں تک لکھوں، بس! سردست یہی لکھتے ہیں:
*ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا،
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھی،
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں،
ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں،
ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں،
ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں،
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسوں کا،
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھی....!!
فقط والسلام
Anam ansari
05-Apr-2022 08:42 PM
بہت اچھے
Reply
Simran Bhagat
05-Apr-2022 10:05 AM
Nice👌👌
Reply
Seyad faizul murad
04-Apr-2022 10:22 PM
Are waaah
Reply